اور میرے اندر کا کیلیگرافر انگڑائی لے کر جاگ اٹھا۔۔۔

یہ بے حد خوب صورت خطاطی کا نمونہ بہن Hasrat Jahan Art نے بھیجا ہے۔ یقیناً ان کا کام شان دار ہے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ حسرت جہاں بین الاقوامی شناخت کی حامل ہیں اور چند دن قبل انھیں ان کی شان دار خطاطی پر بین الاقوامی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

ان کی یہ خطاطی دیکھ کر آج میں اپنے ماضی کی یادوں میں کھو سا گیا ہوں۔ دراصل مجھے بچپن سے ہی خطاطی کا شوق رہا ہے۔ بچپن میں میرے گھر کے سامنے ایک پینٹر صاحب ہوا کرتے تھے جو برجیش آرٹ کے نام سے اپنی دوکان چلاتے تھے۔ انھیں اردو نہیں آتی تھی۔ لیکن ایک بار انھیں اردو میں بینر لکھنے کا کام مل گیا جسے فوراً بنانا تھا، لیکن ہوا یہ کہ جس شخص کے بھروسے پر انھوں نے یہ کام لیا تھا، اتفاق سے وہ اچانک شہر سے باہر چلا گیا۔ اب انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ میری نظر میں کوئی ایسا شخص ہے جو اردو جانتا ہو اور اس بورڈ پر اردو میں تحریر لکھ دے۔ باقی کام وہ برش چلا کر خود کرلیں گے۔ بس پھر کیا تھا، اتنا سننا تھا  کہ میں نے چاک اٹھایا اور چند منٹوں میں ان کا کام کردیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ لوگوں نے اس کام لیے برجیش جی کی خوب ستائش بھی کی۔ اب شہر کے لوگ اردو میں بینر، پوسٹر یا بورڈ کے لیے انھی کے پاس آنے لگے۔

میرے شہر کے مشہور ترین پینٹر کا نام ’افروز آرٹ‘ تھا۔ جس گلی میں ان کا دفتر تھا، اس گلی کا نام بھی موصوف نے ’افروز اسٹریٹ‘ رکھ لیا تھا۔ ایک دفعہ ایک دوست کے ہم راہ ان کے یہاں جانا ہوا۔ میرے دوست کو فوری ایک بینر کی ضرورت تھی۔ افروز صاحب نے ایک تو اس کام کے لیے پیسے بہت زیادہ مانگے اور پھر ہمیں کل آنے کو کہا۔ میرے دوست نے کہا کہ پیسے تو آپ لے لیجیے، لیکن میرا کام آج  ہی کر دیجیے۔ وہ بڑی بڑی باتیں بنانے لگے۔ یہ دیکھ کر میرے منھ سے نکل گیا کہ یہ اتنا مشکل کام بھی نہیں ہے، جتنا آپ بتا رہے ہیں۔ یہ سن کر انھیں غصہ آگیا اور کہنے لگے کہ تو پھر تم ہی لکھ لو؟ مجھے ان کا یہ خیال پسند آیا۔ میں نے کہا، جی ہاں! اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ میں یہ کام آپ کے سامنے کرکے دکھا دیتا ہوں۔ مجھے بس آپ کی دیوار، برش اور پینٹ استعمال کرنے کی اجازت دیجیے۔ پیسے آپ ہی رکھ لیجیے گا۔ وہ ہنسنے لگے۔ لیکن تب تک میں ان کی دیوار پر کینوس نصب کر چکا تھا۔ میں نے چاک اٹھایا اور ایک دو منٹ میں جو کچھ لکھنا تھا، لکھ دیا۔ پینٹر موصوف حیران ہوئے۔ وہ اپنا سب کام چھوڑ کر میرے پاس آگئے۔ کہنے لگے کہ بہت فاسٹ ہو۔ ٹریننگ کہاں سے حاصل کی ہے؟ میں بھی ہنس پڑا۔ میں نے کہا، میرے استاد بہت بڑے آدمی ہیں۔ وہ بھی حیران تھے۔ انھوں نے ان کا نام جاننے کی کوشش کی۔ میں نے اپنے اسکول کے ہیڈ ماسٹر جناب حسن معاویہ چچا میاں کا نام بتا دیا۔ دراصل آج بھی میرے پورے شہر میں حسن معاویہ ندوی صاحب جیسی خوش خط اردو کوئی نہیں لکھ سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے خود اپنے محلے میں جلسوں کے بورڈ بنائے ہیں۔ تب میں بورڈ میں تھرموکول استعمال کیا کرتا تھا۔ نہ جانے کتنے لوگوں کی شادی کے بورڈ بھی میں نے بنائے ہوں گے۔ اور ہاں، میں محرم کے بورڈوں پر بھی اپنے ہاتھ آزما چکا ہوں۔

بچپن کی یادوں سے آگے بڑھتے ہیں۔ یہ کالج کے دنوں کی بات ہے۔ ایک دن جامعہ ملیہ کے فائن آرٹس ڈپارٹمنٹ میں پینٹنگ کی ورکشاپ تھی اور اس ورکشاپ کے بعد ہر ایک کو اپنی پینٹنگ بنانی تھی۔ طے یہ ہوا تھا کہ ان تمام پینٹنگز کی نمائش کی جائے گی۔ مجھے یہ بات اپنے ایک دوست سے معلوم ہوئی۔ ہوا یوں کہ اس دن میں نے فائن آرٹس میں زیر تعلیم اپنے مذکورہ دوست کو فون کیا تو اس کا جواب تھا کہ وہ ابھی مصروف ہے، اس وقت نہیں مل سکتا۔ میں نے پوچھا اتنا بھی کیا مصروف ہو؟ تب اس نے ساری بات بتائی۔ یہ سن کر میں بھی وہاں پہنچ گیا۔ ورکشاپ تو ختم ہو چکی تھی۔ اب ہر اسٹوڈنٹ اپنی اپنی پینٹنگ بنانے میں مصروف تھا۔ میرا دوست بھی پینٹنگ بنا رہا تھا۔ میں اس کے پاس چلا گیا۔ شاید اسے کسی چیز کی ضرورت تھی۔ اس نے کہا: ساحل، میں ابھی آتا ہوں، تب تک تم یہیں رہنا۔

میرے سامنے اس کا کینوس تھا۔ میں بڑے غور سے کینوس کو دیکھ رہا تھا۔ یکبارگی ایسا لگا گویا کینوس پر موجود سفید کارڈ بورڈ مجھے چڑھا رہا ہے۔ میں نے سوچا آج میں اسے کرارا جواب دوں گا۔ لیکن سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر کیا کروں۔ پھر میں نے دیکھا کہ میرے دوست نے ایک پیالے میں سرخ رنگ کا پینٹ گھول رکھا ہے۔ بس پھر کیا تھا، وہ پیالہ اٹھایا اور پوری طاقت سے اس پیالے کا پینٹ اس بورڈ پر دے مارا۔ ایسا لگ رہا تھا گویا میں نے اس سفید بورڈ کا قتل کر دیا ہو اور اس کے پورے جسم سے خون بہہ رہا ہو۔ اتنے میں میرا دوست آگیا۔ اپنا کینوس دیکھ کر وہ آپا کھو بیٹھا۔ میں نہیں بتا سکتا کہ اس نے مجھے کتنی گالیاں دی ہوں گی۔ لیکن میں نے ہنستے ہوئے کہا: بیٹا تم نہیں جانتے کہ تم کتنے بڑے فن کار سے بات کر رہے ہو۔ یہ سننا تھا کہ وہ اور بھی غصے میں آگیا۔ اس سے پہلے کہ وہ میرے ’عجوبہ آرٹ‘ کو اپنے کینوس سے اتار کر اس کا ’حشر نشر‘ کر دیتا، میں نے خود اسے اتار کر اپنے پاس رکھ لیا۔ تبھی مجھ میں بچپن والا فن کار جاگ اٹھا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا بھائی کیا مجھے کالا پینٹ اور برش دے سکتے ہو؟ وہ تو پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا، میرے اتنا کہنے پر اور بھڑک اٹھا اور دو چار اور گالیاں سنا دیں۔ شاید وہ مجھ میں موجود فن کار کو پہچان نہیں پایا تھا۔ خیر میں نے اس کے قریب بیٹھی ایک لڑکی سے بلیک مارکر لیا اور خون کے چھینٹوں والے اس کارڈ بورڈ پر لکھا- ’ہم نے کبھی سوچا نہ تھا اک دن ایسا بھی آئے گا، انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جائے گا۔‘

اتنا لکھنا تھا کہ ایک استاد میرے قریب پہنچ گئے۔ میرے اس بورڈ کو دیکھ کر حیران ہوگئے۔ انھوں نے کئی لوگوں کو بلا کر دکھایا۔ ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ شاید وہ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے میری اس نام نہاد پینٹنگ کو اپنی نمائش میں بھی رکھا اور سب اسے بہت غور سے دیکھ رہے تھے اور مختلف قسم کی باتیں کر رہے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شاید تعلیمی میلے کے دوران خطاطی کا مقابلہ ہوا۔ میں اس کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔ لیکن جب میں اچانک وہاں پہنچا تو دیکھا کہ کچھ لوگ خطاطی کر رہے ہیں۔ پھر کیا تھا، میرے اندر کا کیلیگرافر انگڑائی لے کر جاگ اٹھا۔ میں آرگنائزر کے پاس گیا اور اس مقابلے میں شامل ہونے کی درخواست کی۔ انھوں نے یہ کہہ کر کارڈ بورڈ دینے سے انکار کر دیا کہ اب تو یہ پانچ منٹ میں ختم ہونے والا ہے۔ میرا جواب تھا: پانچ منٹ تو بہت کافی ہیں۔ وہ بھی حیران تھے۔ جس کے ہاتھ میں کارڈ بورڈ تھا، اس نے عجیب سی شکل بنائی۔ لیکن کچھ سوچ کر کارڈ بورڈ میری طرف بڑھادیا۔ اب مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ میرے پاس خطاطی کرنے کے لیے نہ برش تھا، نہ رنگ۔ پھر مجھے یاد آیا کہ میرے بیگ میں ایک چاک رکھا ہے۔ اسے نکالا۔ پہلے چاک سے لکھا اور پھر پاس والی لڑکی سے اسکیچ پین ادھار لیا۔ وہ بھی ہنس رہی تھی کہ میں اسکیچ پین سے ایسی کون سی خطاطی کر لوں گا۔ لیکن خیر۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میں نے اس مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ جامعہ ملیہ کے ایم اے انصاری آڈیٹوریم تقسیم انعامات کی تقریب مجھے بلاکر انعام اور سرٹیفیکٹ دیا گیا۔

حال ہی میں استنبول میں ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک دن میں گرینڈ بازار کے قریب واقع کتاب بازار گیا۔ میری اہلیہ ہم راہ تھیں۔ اس بازار میں خطاطی اور پینٹنگ کے بے حد نفیس نمونے بھی ملتے ہیں۔ اس دن شاید ہماری قسمت میں مقدر مصطفیٰ صاحب سے ملنا لکھا تھا۔ یہ صاحب استنبول کے مشہور و معروف خطاط ہیں۔ وہ اپنی خطاطی میں مشغول تھے۔ میں نے ان کی ویڈیو بنانا شروع کردی۔ پھر تعارف کی خاطر ان سے بات کرنے لگا۔ یہ جان کر وہ بہت خوش ہوئے کہ ہم ہندوستان سے آئے ہیں۔ انھوں نے ایک سادہ کاغذ کا پرزہ اٹھایا اور اسے میری طرف بڑھادیا۔ میں نے اس پر انگریزی اور اردو میں اپنا نام لکھا تو وہ بے حد خوش ہوئے۔ اپنی کرسی سے اٹھے اور اندر سے اپنی ایک بنائی ہوئی  پینٹنگ، جو شاید ابھی ادھوری تھی، لے کر آئے۔ اسی پر میرا اور اہلیہ کا نام خطاطی کے انداز میں لکھ کر ہمیں تحفے میں دیا۔ انھوں میری ہینڈ رائٹنگ کی خوب تعریف کی اور کہا کہ میں بھی خطاط بن سکتا ہوں۔ اتنا سننا تھا کہ اسی وقت میں نے ارادہ کرلیا کہ اب تو میں خطاطی سیکھ کر رہوں گا، اور میرے استاد مقدر صاحب ہوں گے۔ میں نے اپنے ارادے کا اظہار ان سے کیا تو وہ مسکرائے اور کہا کہ میں تمھارے لیے وقت نکالوں گا۔ لیکن افسوس… اس بات کو کئی مہینے ہوگئے۔ دوبارہ اس طرف نہ جانا ہوسکا اور نہ ہی ان سے ملاقات ہوسکی۔ لیکن ان شاء اللہ میں جلد ہی ان سے ملنے کی کوشش کروں گا، اور کم از کم ان کی پوری کہانی آپ سب کے سامنے ضرور رکھوں گا۔

— افروز عالم ساحل

Share: