سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی وقف املاک کو لے کر تبھی جاگتے ہیں جب وہ ہمارے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ وقف کی مسجدوں کو لے کر بھی ہمارا یہی رویہ ہے۔

بتادیں کہ دلی وقف بورڈ سے آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل کردہ اہم دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ دلی گزٹ اعلامیہ کے تحت پوری دلی میں 827 مساجد ہیں جن میں سے صرف 193 مساجد دلی وقف بورڈ انتظامیہ کے کنٹرول میں ہیں اور ان تمام مساجد میں نماز ادا کی جارہی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ یہ اعداد و شمار دلی وقف بورڈ سے آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل ہوئے ہیں اور یہ دستاویز قریب پانچ سال پرانی ہیں۔ ایسے میں ان اعداد و شمار میں کمی یا اضافہ ہو سکتا ہے۔

ایک آر ٹی آئی کے جواب میں، دہلی وقف بورڈ نے مجھے یہ بھی بتا چکی ہے کہ پوری دہلی میں ایسی 156 وقف جائیدادیں ہیں، جن پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ 156وقف جائیدادوں کی اس فہرست میں کوٹلہ فیروز شاہ کے اندر موجود جامع مسجد، لال قلعہ کے اندر موجود موتی مسجد، کناٹ پیلیس کے نزدیک ہیلی روڈ کی مسجد، دہلی گولف کلب کے کمپاؤنڈ میں موجود مقبرہ سید عابد، مقبرہ بیگم جان اور مسجد، پرانا قلعہ کے اندر موجود مسجد کوہنہ، صفدر جنگ مقبرہ کے اندر موجود مسجد اور مدرسہ، گرین پارک کی نیلی مسجد اور مخدوم مسجد، حوض خاص مسجد، مقبرہ فیروز شاہ تغلق، لودھی روڈ مسجد، داؤد سرائے کی مسجد و مقبرہ جمالی کمالی، مہرولی میں مقیم درگاہ حضرت بختیار کاکی کے اندر موجود موتی مسجد، نظام الدین علاقے میں واقع مسجد عرب کی سرائے، مسجد بیگم پور، متھرا روڈ کی مسجد خیر المنزل، آئی ایس بی ٹی کشمیری گیٹ کے قریب مقیم مسجد قدسیہ باغ جیسی کئی اہم مسجدوں و مقبروں پر دلی وقف بورڈ نے’’ محکمہ آثار قدیمہ کے غیر قانونی تجاوزات کے تحت‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔

اس طرح محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے 156 جائیدادوں پر غیر قانونی قبضے کی فہرست میں 38 مساجد کے نام شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ اہم مساجد کے ناموں کو آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔

لیکن دوسری طرف، محکمہ آثار قدیمہ ایک آر ٹی آئی کے جواب میں کہتا ہے – ’33 مساجد یا مساجد جو کسی مقبرے سے منسلک ہیں، ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ، دہلی ڈویژن کے دائرہ اختیار میں، مرکزی یادگاروں کی فہرست میں آتی ہیں۔‘ اس کے ساتھ انہوں نے 12 مساجد کی فہرست بھی دی تھی، جس میں صرف تین مساجد میں نماز ادا کی جا رہی ہے۔ وہ تین مساجد ہیں۔ پالم مسجد، نیلی مسجد اور سنہری مسجد۔ اب سوال یہ بھی ہے کہ باقی مسجدیں کہاں غائب ہوگئیں، جن کو لے کر دلی وقف بورڈ کا الزام ہے کہ اس پر محکمہ آثار قدیمہ نے قبضہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ راقم نے ان میں کچھ مسجدوں کا آج سے تین چار سال قبل دورہ بھی کیا تھا، اس دوران پایا کہ جتنی بھی مسجدیں محکمہ آثار قدیمہ کے تحت آتی ہیں، ان میں زیادہ تر کی حالت بے حد خراب ہے۔ راقم نے صرف دلی ہی نہیں، بلکہ ملک کی ان تمام مساجد کی فہرست آرٹی آئی کے ذریعہ حاصل کی تھی، جو محکمہ آثار قدیمہ کی دیکھ بھال میں ہیں اور جہاں نماز نہیں ہورہی ہے۔ راقم کی خواہش تھی ان مساجد کے تازہ حالات سے لوگوں کو روبرو کرایا جائے، لیکن تب اس کام میں کسی بھی تنظیم نے دلچسپی نہیں دکھائی تھی۔

یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ دلی وقف بورڈ سے آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے علاوہ 114 وقف جائیداد دلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔ اور غیر قانونی قبضے والی 114 وقف جائیدادوں کی اس فہرست میں 18 مساجد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دلی میں ایسی 26 وقف املاک ہیں جن پر دیگر سرکاری اداروں کا ’غیر قانونی قبضہ‘ ہے۔ ’26 ناجائز قبضوں‘ والی وقف جائیدادوں کی اس فہرست میں بھی 12 مساجد کے نام شامل ہیں۔ دستاویزات بتاتی ہیں کہ اولڈ روہتک روڈ پر واقع ریلوے اکاؤنٹ آفس کے قریب دلی وقف بورڈ کی ایک نیم والی مسجد تھی، جس پر ریلوے نے ’ناجائز قبضہ‘ کر کے مسجد کو ’شہید‘ کر دیا۔ وہیں مہرولی کے مدرسہ والی مسجد پر ایم سی ڈی کا ’ناجائز قبضہ‘ ہے۔

دستاویزات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دلی کے لیڈی ہارڈنگ اسپتال میں دلی وقف بورڈ کی ایک چھوٹی سی مسجد تھی، جسے اسپتال انتظامیہ ’اسٹور روم‘کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔

آگے کی کہانی اور بھی پریشان کن ہے۔ کیونکہ وقف بورڈ کی دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ دلی وقف بورڈ کی 373 جائیدادوں پر دلی کے ’دبنگ‘ مولویوں اور دیگر افراد کا ’ناجائز قبضہ‘ ہے۔ ان ’ناجائز قبضوں‘ میں 138 مساجد کے نام شامل ہیں۔    

اس سے پہلے کہ بہت کچھ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے، وقف کو لے کر بیدار ہوجائیے۔ سب کچھ متولی یا وقف بورڈ پر ہی مت چھوڑ دیجئے۔ کچھ ذمہ داری آپ کی بھی ہے۔ وقف بورڈ سے حساب لیجئے، اس سے پہلے کہ آپ کا حساب لیا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *