آج آرٹیکل 14 نامی ایک ویب سائٹ نے ایک اسٹوری شائع کی ہے۔ اس اسٹوری میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کا نماز پڑھنا، کاروبار کرنا، گوشت کھانا، محبت کرنا، حتیٰ کہ پانی پینا بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ اسٹوری دلی میں مقیم ایک وکیل ’منی چندر‘ نے لکھی ہے۔ ابھی یہ اسٹوری ختم ہی ہوئی تھی کہ میرے سامنے الجزیزہ کا ایک ویڈیو تھا، جس میں سڑک پر نماز پڑھنے کے ’جرم‘ میں وشو ہندو پریشد کے لوگ نمازیوں کی پٹائی کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ ویڈیو تین چار دن پرانی ہے، لیکن میں دوبارہ اسلئے بھی دیکھنے لگا کیونکہ امید تھی کہ الجزیزہ کے ویڈیو میں شاید مزید کچھ نیا ہو۔ جو تھا نہیں۔

اس کے بعد پورے دن اسی بات پر سوچتا رہا کہ نماز کے لئے پٹے جانے کے بعد آخر ہم نے کیا کیا؟ کافی دیر سوچنے کے بعد بھی مجھے ایسا کچھ بھی نظر نہیں آیا جو ہم نے کیا ہو۔ اللہ کرے میری یہ بات غلط ہو اور ہم نے شاید بہت کچھ کیا ہو۔ اسلئے سوچا کہ آج اسی مدعے پر پوسٹ کرکے آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کی نظر میں اس سلسلے میں کوئی کام ہوا ہو تو برائے مہربانی مجھے کمنٹ باکس میں بتانے کی زحمت کریں، تاکہ میری بھی نظریں کھلے، اور دماغ میں منفی سوچ جو ابھی تک بھری ہوئی ہے وہ فوراً مثبت سوچ میں بدل جائے۔ کیونکہ مجھے یاد ہے کہ گڑگاؤں میں سڑک پر نماز پڑھنے کے معاملے میں جب ہماری پٹائی شروع ہوئی تھی تو میں نے اس معاملے میں تحقیق کرکے ایک رپورٹ لکھی تھی، اس رپورٹ کے دوران اور اس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد میں نے قوم کے کئی لیڈران سے بات چیت کی اور انہیں تمام اعداد و شمار سے روبرو کرایا تاکہ اس کی روشنی میں وہ ایک مہم کھڑی کر سکیں۔ لیکن مجھے ابھی تک ایسی کوئی مہم دور دور تک نظر نہیں آتی۔ سوشل میڈیا پر بھی اس کی چرچا اب غائب ہے۔ شاید یہ بھی ممکن ہو کہ گڑگاؤں میں ایک ساتھ درجنوں مساجد بنائی گئی ہوں کہ لوگوں کو سڑک پر نماز پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑھ رہی ہے؟ یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سڑک پر نماز پڑھنے کی مخالفت کرنے والے ہی خاموش ہو گئے ہیں، تو گڑگاؤں کی مسجدوں کا جھگڑا آپ کے ذہن سے غائب ہو گیا ہے۔ لیکن وہ کتنے دنوں تک خاموش رہنگے یہ آپ ہی بہتر طریقے سے جانتے ہونگے۔

دراصل ہماری سچائی یہ ہے کہ ہم ہمیشہ وہی کام کرتے ہیں جو ‘بگ باس’ ہمیں کرنے کو کہتے ہیں۔ یا سوشل میڈیا پر ہم اسی مدعے پر بحث کرتے ہیں، جو ٹرینڈ میں چل رہا ہوتا ہے۔ آج کل گیانواپی مسجد زیر بحث ہے، اس لیے ہم اسی پر بحث کر رہے ہیں۔ کل جب یہ عدالت کے فیصلے کے بعد شاید اس کا مسئلہ ’حل‘ ہوجائے گا تو ہم بھی خاموش ہو جائیں گے۔

مجھے پتہ ہے کہ میرے یہ لکھنے سے آپ پر کوئی اثر نہیں ہوگا کہ گڑگاؤں میں مسلمانوں کے وقف بورڈ نے کئی مساجد، قبرستان، درگاہیں اور وقف کی کئی جائیدادیں غیر مسلموں کو لیز پر دے رکھی ہیں، اور یہ سب کچھ وقف بورڈ کی دیکھ  بھال میں ہورہا ہے۔

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پورے ضلع گڑگاؤں میں جملہ 89 مساجد ہیں جبکہ صرف شہر گڑگاؤں میں وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈ مسجدوں کی تعداد 35 ہے۔ ان 35 مساجد کی فہرست وقف بورڈ اور وقف مینیجمنٹ آف انڈیا دونوں کی ویب سائٹس پر موجود ہے۔ لیکن وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کی ویب سائٹ پر چھان بین کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں 21 مساجد پر غیر قانونی قبضے ہیں اور قابضین سب کے سب غیر مسلمین ہیں جبکہ ایک مسجد پر پرائمری اسکول اور ایک مسجد پر گردوارہ بن چکا ہے۔ 11 مساجد کو موجود بتایا گیا ہے لیکن ان میں کئی کی حالت حد خراب ہے اور بعض کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ باقی 3 مساجد کے بارے میں وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔

غورطلب بات یہ ہے کہ سال 2018 میں ہریانہ وقف بورڈ نے ضلع انتظامیہ کو جملہ 19 مقامات کی فہرست دی تھی جہاں خود کی زمین ہوتے ہوئے بھی مسلمان نماز نہیں ادا کر پا رہے ہیں۔ بورڈ نے گروگرام کے ضلع کمشنر کو خط لکھ کر یہ اطلاع دی تھی کہ وقف بورڈ کے تحت آنے والی 9 مساجد پر گاؤں والوں کا قبضہ ہے اور 10 مقامات ایسے ہیں جو مسجد کے لیے مختص ہیں لیکن ان پر ہندوتوادی نماز نہیں پڑھنے دیتے۔ سوال یہ ہے کہ جب وقف بورڈ کے کنٹرول میں گڑگاؤں میں کل 89 مساجد ہیں تو اس نے صرف 19 مساجد کی نشاندہی کیوں کی تھی؟ کیا باقی کی 70 مساجد بحال ہیں؟ اس سوال کا بہتر جواب ہریانہ وقف بورڈ ہی دے سکتا ہے۔ وقف بورڈ کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ جب 19 مساجد کی فہرست ضلع انتظامیہ کو سونپ دی تو آگے کی کارروائی کا کیا ہوا؟ کیونکہ گڑگاؤں کے بعض سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ جو 19 مساجد کی فہرست وقف بورڈ نے ضلع کمشنر کو سونپی تھیں وہ ابھی بھی ہندوؤں کے قبضے میں ہیں، وہاں ابھی بھی بھینسیں اور دیگر جانور باندھے جاتے ہیں۔

اگر جملہ وقف جائیدادوں کی بات کریں تو ضلع گڑگاؤں میں وقف بورڈ کے پاس جملہ 766 وقف جائیدادیں ہیں جن میں 89 مساجد، 108 قبرستان، 112 گھر، 209 پلاٹس، 50 زرعی زمینیں، 9 درگاہیں، 9 عیدگاہیں، 16 خانقاہیں، 128 دکانیں، 11 تکیے اور ایک عمارت شامل ہے۔ وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق ان میں صرف 4 جائیدادوں پر ہی مقدمہ چل رہا ہے اور صرف 16 جائیدادوں پر ہی غیرقانونی قبضے ہیں، جبکہ 60 وقف جائیدادوں کے بارے میں وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اگر صرف شہر گڑگاؤں کی بات کی جائے تو وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کے مطابق یہاں وقف بورڈ کی جملہ 405 جائیدادیں ہیں۔ ان میں 35 مساجد، 42 قبرستان، 19 مکانات، 191 پلاٹس، 7 زرعی زمینیں، 6 درگاہیں، 6 عیدگاہیں، 3 خانقاہیں،91 دکانیں اور 3 تکیے شامل ہیں۔ ان تمام جائیدادوں میں وقف بورڈ صرف 5 جائیدادوں پر ہی غیرقانونی قبضہ بتاتا ہے، دو جائیدادوں کا معاملہ عدالت میں ہے۔ 23 وقف جائیدادوں کے بارے میں وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔

مجھے پوری امید ہے کہ آپ نے ابھی تک اس سلسلے میں میری لکھی رپورٹ نہیں پڑھی ہوگی۔ اگرچہ اب بھی امید ہے کہ آپ نہیں پڑھیں گے، کیونکہ یہ مدعہ ٹرینڈ میں نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی کچھ سنجیدہ لوگ یہ رپورٹ پڑھنے کی خواہش رکھتے ہیں تو وہ مجھے کمنٹ باکس میں مانگ سکتے ہیں۔ مزید دلچسپی ہو تو دیگر ریاستوں کے مساجد پر بھی یہاں بات چیت کی جا سکتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *